لاہور(نیوز ڈیسک ) انڈیا میں ہونے ولے الیکشن کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے جو بیان دیا ہے وہ پاکستان سمیت ساری دنیا میں وائرل ہوا ہے تاہم اس بیان نے سب سے زیادہ کھلبلی انڈیا میں مچا رکھی ہے۔انڈیا کی تاریخ میں جو بھی پارٹی حکومت میں آئی ہے اس کے الیکشن جیتنے کا ایجنڈا پاکستان اور مسلم دشمنی پر مبنی ہوتا ہے۔انڈیا میں کانگریس پارٹی کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتاہےکہ وہ پاکستان کے لیے سافٹ کارنر رکھتی ہے اور انڈیا کے خلاف پاکستان کی مددکرتی ہے لہٰذا وہ ”دیش دروہی“ پارٹی ہے۔جبکہ بی جے پی چونکہ آر ایس ایس کی ذیلی سیاسی تنظیم ہے اور یہ انتہا پسند ہندؤوں کی جماعت ہے اس لیے اسے زیادہ محب وطن گردانا جاتا ہے۔گزشتہ دنوں پاکستان انڈیا کی جنگ کا شوشہ بھی انڈیا کی طرف سے چھوڑا گیا کیونکہ وہ الیکشن کمپین میں اس پروپیگنڈا کو استعمال کرنا چاہتے تھے۔تاہم عمران خان نے بی جے پی کے حق میں بیان دے کر انڈیا کی حکومتی پارٹی کی چال خراب کر دی ہے۔اب جب پاکستانی وزیر اعظم نے بی جے پی کے حق میں بیان دے دیا ہے تو انڈیا کے عوام کیوز ہو گئے ہیں کہ دیش دروہی پارٹی کون ہے اور محب وطن کون۔سینئر صحافی رؤوف کلاسرا نے اپنے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی اب پریشان ہے کہ وہ ملک میں اپنے ووٹرز کو کیسے کنٹرول کرے اور بتائے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے بیان سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔رؤوف کلاسرا نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس وقت جنرل باجوہ اور عمران خان ایک پیج پر ہیں اور وہ انڈیا کے ساتھ کشمیر اور اپنے بارڈر ایشو کو لے کر کوئی ایسا فیصلہ کر سکتے ہیں جنہیں پاکستانی عوام قبول کر لے گی ۔اس وقت ان دونوں سول و فوجی لیڈران پر عوام کا جو اعتماد ہے اور ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے اگر یہ انڈیا کے ساتھ کچھ انیس بیس پر بھی معاہدہ کر لیں گے تو عوام اسے بھی قبول کرے گی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ انڈیا کے الیکشن ہونے کے بعد حکومتی پارٹی پاکستان کے ساتھ کیسے روابط رکھتی ہے اور پاکستان اسے کیسے ڈیل کرتا ہے۔